نگاہِ نم میں طوفانوں کا منظر رقص کرتا ہے
بھنور میں ساتھ اپنے تو سمندر رقص کرتا ہے
ہمیں تو خرقہ پوشی راس آئی ہے جہاں والو!
ہُما ، ورنہ فقیروں ہی کے سر پر رقص کرتا ہے
تصور میں لیے ہر دم ، کوئی مہتاب سا چہرہ
سرِ دشتِ جنوں اک خاک پیکر رقص کرتا ہے
نگاہِ مست سے پیتے ہیں ، محو رقص رہتے ہیں
زمانہ بھی ہمارے ساتھ ، اکثر رقص کرتا ہے
غرورِ حسن سے کوئی ، ہوائوں میں اُڑے ایسے
کہ جیسے شاخِ گُل پر ، اک گُلِ تر رقص کرتا ہے
سکندر اپنی شوکت پر ، پریشاں آپ ہے ، لیکن
قلندر مسکراتا ہے ، قلندر رقص کرتا ہے
کسی کے عشق کا اعجاز شوکت ، اس کو کہتے ہیں
دِوانوں کی طرح کوئی جو در در رقص کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کی فسوں کاری، سرِ بازار می رقصم
محبت ایک بیماری ، سرِ بازار می رقصم
اِدھر ڈوبے ذرا سورج ، اُدھر وہ یاد آ جائے
پریشاں رات ہو ساری ، سرِ بازار می رقصم
میں مٹّی ہوں ، مجھے تو چاک پر گردش میں رہنا ہے
وہ نوری ہو کہ ہو ناری ، سرِ بازار می رقصم
چھپا کر دل میں سیلِ غم ، تبسّم لب پہ رہتا ہے
بڑھے جب گریہ و زاری ، سرِ بازار می رقصم
سرِ دشتِ جنوں ، مجنوں تو محوِ رقص رہتا تھا
ہے مجھ پر بھی جنوں طاری ، سرِ بازار می رقصم
نبھائے کب حسیں کوئی ، یہاں مخلص نہیں کوئی
ہوئی عنقا وفاداری ، سرِ بازار می رقصم
میں کھینچوں رنجِ مہجوری ، رہوں ماتم کُناں شوکت
ہے فطرت میں عزاداری ، سرِ بازار می رقصم